کیا اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے حیافرماتاہے یا نہیں ۔اللہ حق بات ۔حیاء
اِنَّ اللّٰهَ لَا یَسْتَحْیٖۤ اَنْ یَّضْرِبَ مثلاً مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَاؕ-فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-وَ اَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مثلاًۘ-یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّ یَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًاؕ-وَ مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَۙ(۲۶)
ترجمۂ کنزالایمان:بیشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر تو وہ جو ایمان لائے وہ تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے رہے کافر وہ کہتے ہیں ایسی کہاوت میں اللہ کا کیا مقصود ہے، اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں۔
ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے کے لئے کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر۔ بہرحال ایمان والے تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور رہے کافر تو وہ کہتے ہیں ، اس مثال سے اللہ کی مراد کیا ہے؟ اللہبہت سے لوگوں کواس کے ذریعے گمراہ کرتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت عطا فرماتا ہے اور وہ اس کے ذریعے صرف نافرمانوں ہی کو گمراہ کرتا ہے۔
{اِنَّ اللّٰهَ لَا یَسْتَحْیٖ:بیشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا۔} جب اللہ تعالٰی نے ’’سورہ ٔبقرہ‘‘ (کے دوسرے رکوع ) میں منافقوں کی دو مثالیں بیان فرمائیں تو منافقوں نے یہ اعتراض کیاکہ اللہ تعالٰی کی شان اس سے بلند تر ہے کہ ایسی مثالیں بیان فرمائے اور بعض علماء نے فرمایا کہ جب اللہ تعالٰی نے کفار کے معبودوں کی کمزوری کو مکڑی کے جالوں وغیرہ کی مثالوں سے بیان فرمایا تو کافروں نے اس پر اعتراض کیا ۔اس کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۳۶۱، طبری، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ / ۲۱۳-۲۱۴، ملتقطاً)
چونکہ مثالوں کا بیان حکمت کے مطابق اور مضمون کو دل نشین کرنے والا ہوتاہے اورماہرینِ کلام کا یہ طریقہ ہے اس لیے مثال بیان کرنے پر اعتراض غلط ہے۔
{یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًا:اللہ بہت سے لوگوں کواس کے ذریعے گمراہ کرتا ہے۔} ان الفاظ سے کافروں کو جواب دیا گیا کہ مثالیں بیان کرنے سے اللہ تعالٰی کا کیا مقصو دہے نیز مومنوں اور کافروں کے مقولے اس کی دلیل ہیں کہ قرآنی مثالوں کے ذریعے بہت سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں جن کی عقلوں پر جہالت کا غلبہ ہوتاہے اور جن کی عادت صرف ضد، مقابلہ بازی، انکار اور مخالفت ہوتی ہے اور کلام کے بالکل معقول ، مناسب اور موقع محل کے مطابق ہونے کے باوجودوہ اس کا انکار کرتے ہیں اور انہی مثالوں کے ذریعے اللہ تعالٰی بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو غور و تحقیق کے عادی ہوتے ہیں اور انصاف کے خلاف بات نہیں کہتے، جو جانتے ہیں کہ حکمت یہی ہے کہ عظیم المرتبہ چیز کی مثال کسی قدر وقیمت والی چیز سے اور حقیر چیز کی مثال کسی ادنیٰ شے سے دی جاتی ہے جیسا کہ اوپر آیت نمبر17 میں حق کی مثال نور سے اور باطل کی مثال تاریکی سے دی گئی ہے۔ نزولِ قرآن کا اصل مقصد تو ہدایت ہے لیکن چونکہ بہت سے لوگ اپنی کم فہمی کی وجہ سے قرآن کو سن کر گمراہ بھی ہوتے ہیں لہٰذا اس اعتبار سے فرمایا کہ قرآن کے ذریعے بہت سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں۔
{وَ مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ:اور وہ اس کے ذریعے صرف نافرمانوں ہی کو گمراہ کرتا ہے۔} شریعت میں ’’فاسق ‘‘اس نافرمان کو کہتے ہیں جو کبیرہ گناہ کا مرتکب ہو۔ فسق کے تین درجے ہیں ایک تَغَابِی وہ یہ کہ آدمی اتفاقیہ کسی کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوجائے اور اس کو برا ہی جانتا رہا۔دوسرا اِنْہِمَاککہ کبیرہ گناہوں کا عادی ہوگیا اور اس سے بچنے کی پروا نہیں کرتا۔ تیسرا جُحُوْد کہ حرام کو اچھا جان کر ارتکاب کرے اس درجہ والا ایمان سے محروم ہوجاتا ہے۔ پہلے دو درجوں میں جب تک سب سے بڑے کبیرہ گناہ یعنی کفر و شرک کا ارتکاب نہ کرے وہ مومن و مسلمان ہے۔مذکورہ آیت میں فاسقین سے وہی نافرمان مراد ہیں جو ایمان سے خارج ہوگئے۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۶، ۱ /
۸۸)
https://mahmoodahmadofficial.com/جنت-کے-حقدار-کون…ہیں-۔جنت-حقدار-۔/