قربانی کے فضائل فضائل قربانی ۔قربانی فضائل

یقیناً! ذیل میں قربانی کے فضائل پر تقریباً 2000 الفاظ پر مشتمل ایک جامع مضمون پیش کیا جا رہا ہے:

قربانی کے فضائل ۔فضائل قربانی
قربانی کے فضائل ۔فضائل قربانی

قربانی کے فضائل

تعارف

اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسان کو روحانی، اخلاقی اور عملی ہر پہلو سے تربیت فراہم کرتا ہے۔ اس میں عبادات، معاملات، اخلاقیات اور اجتماعی زندگی کے اصول نہایت حکمت اور فطرت کے مطابق بیان کیے گئے ہیں۔ ان عبادات میں سے ایک اہم عبادت “قربانی” ہے جو ہر سال ذی الحجہ کے مہینے میں عید الاضحی کے موقع پر انجام دی جاتی ہے۔ قربانی کا عمل نہ صرف ایک عبادت ہے بلکہ اس میں بہت سی حکمتیں، سبق آموزیاں اور روحانی فوائد بھی پوشیدہ ہیں۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اطاعت شعاری اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یادگار ہے۔

قربانی کی اہمیت قرآن و سنت کی روشنی میں

قربانی کی اہمیت کو قرآن مجید اور احادیثِ نبویہ میں بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

> “فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ”
ترجمہ: “پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔”
(سورۃ الکوثر: 2)

 

یہ آیت کریمہ قربانی کے عمل کو نماز کے ساتھ ذکر کر کے اس کی اہمیت واضح کرتی ہے۔

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

> “لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَٰكِن يَنَالُهُ التَّقْوَىٰ مِنكُمْ”
ترجمہ: “اللہ کو نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ خون، بلکہ اسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔”
(سورۃ الحج: 37)

 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ قربانی کا اصل مقصد گوشت یا خون نہیں بلکہ تقویٰ اور اخلاص ہے۔

احادیثِ نبویہ کی روشنی میں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کو ایک عظیم عمل قرار دیا ہے:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

> “قربانی کے دن انسان کا کوئی عمل اللہ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں۔ قیامت کے دن وہ (قربانی کا جانور) اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا، اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقامِ قبولیت کو پہنچ جاتا ہے۔ پس خوش دلی سے قربانی کرو۔”
(ترمذی، ابن ماجہ)

 

قربانی کا پس منظر

قربانی کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے عظیم واقعہ پر رکھی گئی ہے، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا عزم کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم جذبے کو قبول فرمایا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ ایک دنبہ نازل فرمایا۔ یہ واقعہ قربانی کی روح، اخلاص، اطاعت اور محبتِ الٰہی کا مظہر ہے۔

قربانی کی روحانی فضیلتیں

1. تقویٰ کا حصول:
قربانی کا اصل مقصد اللہ کی رضا اور تقویٰ ہے۔ جب ایک شخص خلوصِ دل سے اللہ کی رضا کے لیے مال خرچ کرتا ہے اور جانور کی قربانی کرتا ہے، تو اس کا دل تقویٰ سے لبریز ہو جاتا ہے۔

2. اتباعِ سنتِ ابراہیمی:
قربانی دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ اس عمل کے ذریعے مسلمان اس عظیم پیغام کو زندہ رکھتے ہیں کہ اللہ کی رضا کے لیے کچھ بھی قربان کیا جا سکتا ہے۔

3. اطاعتِ الٰہی کا مظہر:
قربانی اطاعت اور فرمانبرداری کی علامت ہے۔ یہ یاد دہانی ہے کہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں، تو ہمیں بھی اپنی خواہشات، وقت، اور مال کو اللہ کے حکم کے تابع کرنا چاہیے۔

4. ایثار و قربانی کا جذبہ:
جانور کی قربانی صرف ایک رسمی عمل نہیں، بلکہ یہ ہمیں ایثار، قربانی اور سچائی کا سبق دیتی ہے۔ مسلمان اس موقع پر اپنی ضروریات سے بڑھ کر دوسروں کا خیال رکھتے ہیں۔

 

قربانی کے معاشرتی فوائد

1. غریبوں اور محتاجوں کی مدد:
قربانی کا گوشت تقسیم کر کے غریب و نادار لوگوں کی مدد کی جاتی ہے۔ یہ ایک ذریعہ ہے معاشرتی مساوات اور ہمدردی کا۔

2. خاندانی تعلقات کی مضبوطی:
قربانی کا گوشت رشتہ داروں، دوستوں اور ہمسایوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، جس سے تعلقات میں محبت اور انسیت بڑھتی ہے۔

3. معاشی سرگرمیوں میں اضافہ:
قربانی کے ایام میں لاکھوں جانوروں کی خرید و فروخت ہوتی ہے، جس سے کسان، تاجر اور مزدور سب کو روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں۔

 

قربانی کے شرعی احکام

1. قربانی واجب ہے یا سنت؟
اکثر فقہاء کے نزدیک صاحبِ استطاعت پر قربانی واجب ہے، خصوصاً امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک۔

2. قربانی کے دن:
قربانی تین دنوں میں کی جا سکتی ہے: 10، 11 اور 12 ذوالحجہ کو۔

3. قربانی کے جانور:
بکری، بھیڑ، گائے، اونٹ وغیرہ قربانی کے لیے جائز ہیں۔ گائے اور اونٹ میں سات افراد شریک ہو سکتے ہیں۔

4. جانور کی عمر اور صحت:
بکری کم از کم ایک سال کی، گائے دو سال، اور اونٹ پانچ سال کا ہونا چاہیے۔ جانور صحت مند اور عیب سے پاک ہونا چاہیے۔

 

قربانی کی نیت اور اخلاص

قربانی کا سب سے اہم پہلو نیت اور اخلاص ہے۔ اگر نیت میں ریاکاری یا دکھاوا ہو تو قربانی کا ثواب ضائع ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے:

> “اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔”
(صحیح بخاری)

 

قربانی اور موجودہ دور

آج کے جدید دور میں، جہاں لوگ دنیاوی مصروفیات میں گھرے ہوئے ہیں، قربانی کا پیغام پہلے سے زیادہ اہم ہو چکا ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمیں دنیا کی محبت کو اللہ کی محبت پر غالب نہیں آنے دینا چاہیے۔ ہمیں اپنی خواہشات، وقت، مال، اور حتیٰ کہ اپنی جان تک کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

قربانی سے متعلق چند غلط فہمیاں

1. صرف گوشت کھانے کا ذریعہ سمجھنا:
قربانی صرف گوشت کھانے کا موقع نہیں، بلکہ یہ عبادت ہے اور اس کی نیت صرف اللہ کی رضا ہونی چاہیے۔

2. قربانی کے بجائے رقم دینا بہتر سمجھنا:
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ قربانی کے بجائے رقم دینا زیادہ فائدہ مند ہے۔ اگرچہ صدقہ دینا بھی نیکی ہے، لیکن قربانی ایک مخصوص عبادت ہے جس کا متبادل صرف صدقہ نہیں ہو سکتا۔

3. جانور کی قیمت پر فخر کرنا:
بعض لوگ قیمتی جانور خرید کر فخر کرتے ہیں، حالانکہ قربانی کا مقصد دکھاوا نہیں بلکہ خالص اللہ کی رضا ہے۔

 

نتیجہ

قربانی ایک جامع عبادت ہے جو ہمیں تقویٰ، اطاعت، اخلاص، ایثار، اور معاشرتی ہمدردی کا درس دیتی ہے۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے، جو آج بھی ہمیں اللہ کے راستے میں سب کچھ قربان کرنے کا پیغام دیتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قربانی کو محض ایک رسمی عمل نہ سمجھیں بلکہ اس کے پیچھے موجود روحانی اور اخلاقی پیغام کو سمجھیں اور اپنی زندگی میں اسے اپنائیں۔

 نہیں آتا،قربانی دُرُست ہوجاتی ہے) لہٰذا قربانی والے کا حجامت نہ کرانا بہتر ہے لازِم نہیں ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اچّھوں کی مُشابَہَت(یعنی نقل) بھی اچّھی ہے۔‘‘

غریبوں کی قُربانی:

مفتی صاحبرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہمزید فرماتے ہیں :’’ بلکہ جو قربانی نہ کر سکے وہ بھی اس عَشَرَہ (یعنی ذُوالحِجّۃِ الحرام کے ابتِدائی دس ایّام)میں حجامت نہ کرائے ، بَقَرہ عید کے دن بعد ِنَمازِ عیدحجامت کرائے تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ (قربانی کا)ثواب پائے گا۔‘‘(مِراٰۃُالمناجیحج۲ص۳۷۰)

مُستَحَب کام کیلئے گناہ کی اجازت نہیں :

یاد رہے! چالیس دن کے اندر اندر ناخُن تراشنا ، بغلوں اور ناف کے نیچے کے بال صاف کرنا ضَروری ہے 40دن سے زیادہ تاخیر گناہ ہے چُنانچِہ میرے آقااعلیٰ حضرت امامِ اہلِسنّت مجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں :یہ (یعنی ذُوالحِجّہ کے ابتِدائی دس دن میں ناخن وغیرہ نہ کاٹنے کا)حکم صرف اِسْتِحْبابِی ہے ، کرے تو بہترہے نہ کرے تو مُضایَقہ نہیں ، نہ اس کو حکم عُدُولی(یعنی نافرمانی) کہہ سکتے ہیں ، نہ قربانی میں نَقص (یعنی خامی) آنے کی کوئی وجہ، بلکہ اگر کسی شخص نے 31 دن سے کسی عُذر کے سبب خواہ بِلا عُذر ناخُن نہ تراشے ہوں کہ چاند ذِی الْحِجّہ کا ہوگیاتو وہ اگر چِہ قربانی کا اراد ہ رکھتا ہو اِسمُسْتَحَب پر عمل نہیں کرسکتا کہ اب دسویں تک رکھے گا تو ناخن تراشوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گااور چالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے۔ فعلِ مُسْتَحَب کے لئے گناہ نہیں کرسکتا۔(مُلَخَّص ازفتاوٰی رضویہ ج۲۰ ص۳۵۳۔۳۵۴)(ابلق گھوڑے سوار، ص۱ تا ۶)

عشرۂ ذی الحجہ کے فضائل:

آنحضرت ا نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے عشرۂ ذی الحجہ سے بہتر کوئی زمانہ نہیں، ان میں ایک دن کا روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر اور ایک رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

قرآن مجید میں سورۂ ’’والفجر‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے اور وہ دس راتیں جمہور کے قول کے مطابق یہی عشرۂ ذی الحجہ کی راتیں ہیں۔ خصوصاً نویں ذی الحجہ کا روزہ رکھنا ایک سال گذشتہ اورایک سا ل آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہے اور عید کی رات میں بیدار رہ کر عبادت میں مشغول رہنا بڑی فضیلت اور ثواب کا موجب ہے۔

تکبیر تشریق:

’’اﷲ اکبر اﷲ اکبر لا إلٰہ إلا اﷲ واﷲ أکبر اﷲ أکبر وﷲ الحمد‘‘۔

نویں تاریخ کی صبح سے تیرہویں تاریخ کی عصر تک ہر نماز کے بعد بآوازِ بلند ایک مرتبہ مذکورہ تکبیر کہنا واجب ہے۔ فتویٰ اس پر ہے کہ باجماعت اور تنہا نماز پڑھنے والے اس میں برابر ہیں، اس طرح مرد وعورت دونوں پر واجب ہے، البتہ عورت بآوازِ بلند تکبیر نہ کہے، آہستہ سے کہے۔(شامی)

عید الاضحی کے دن مذکورہ ذیل امور مسنون ہیں:

صبح سویرے اُٹھنا، غسل ومسواک کرنا، پاک وصاف عمدہ کپڑے جو اپنے پاس ہوں پہننا، خوشبولگانا، نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا، عید گاہ کو جاتے ہوئے راستہ میں بآوازِ بلند تکبیر کہنا۔

نمازِ عید:

نماز عید دو رکعت ہیں۔ نماز عید اور دیگر نمازوں میں فرق صرف اتنا ہے کہ اس میں ہر رکعت کے اندر تین تین تکبیریں زائد ہیں۔ پہلی رکعت میں ’’سبحانک اللّٰہم ‘‘پڑھنے کے بعد قرأت سے پہلے اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد رکوع سے پہلے۔ ان زائد تکبیروں میں کانوں تک ہاتھ اٹھانے ہیں۔ پہلی رکعت میں دوتکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑ دیں، تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لیں۔ دوسری رکعت میں تینوں تکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑ دیئے جائیں، چوتھی تکبیر کے ساتھ رکوع میں چلے جائیں۔

٭…اگر دورانِ نماز امام یا کوئی مقتدی عید کی زائد تکبیریں یا ترتیب بھول جائے تو ازدحام کی وجہ سے نماز درست ہوگی، سجدۂ سہو بھی ضروری نہیں۔

٭…اگر کوئی نماز میں تاخیر سے پہنچا اور ایک رکعت نکل گئی تو فوت شدہ رکعت کو پہلی رکعت کی ترتیب کے مطابق قضاء کرے گا، یعنی ثناء ’’سبحانک اللّٰہم‘‘ کے بعد تین زائد تکبیریں کہے گا اور آگے ترتیب کے مطابق رکعت پوری کرے گا۔

نماز عید کے بعد خطبہ سننا مسنون ہے۔ خطبہ سننے کا اہتمام کرنا چاہئے، خطبہ سے پہلے اٹھنا درست نہیں ہے۔

فضائل قربانی:

قربانی کرنا واجب ہے، رسول اللہ ا نے ہجرت کے بعد ہرسال قربانی فرمائی ، کسی سال ترک نہیں فرمائی۔ جس عمل کو حضور ا نے لگاتار کیا اور کسی سال بھی نہ چھوڑا ہو تو یہ اُس عمل کے واجب ہونے کی دلیل ہے۔ علاوہ ازیں آپ انے قربانی نہ کرنے والوں پر وعید ارشاد فرمائی۔ حدیث پاک میں بہت سی وعیدیں ملتی ہیں، مثلاً: آپ اکا یہ ارشاد کہ جو قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔ علاوہ ازیں خود قرآن میں بعض آیات سے بھی قربانی کا وجوب ثابت ہے۔ جو لوگ حدیث پاک کے مخالف ہیں اور اس کو حجت نہیں مانتے، وہ قربانی کا انکار کرتے ہیں، ان سے جو لوگ متأثر ہوتے ہیں وہ کہتے ہیںکہ پیسے دے دیئے جائیں یا یتیم خانہ میں رقم دے دی جائے، یہ بالکل غلط ہے، کیونکہ عمل کی ایک تو صورت ہوتی ہے، دوسری حقیقت ہے۔ قربانی کی صورت یہی ضروری ہے، اس کی بڑی مصلحتیں ہیں، اس کی حقیقت اخلاص ہے۔ آیت قرآنی سے بھی یہی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔

قربانی کی بڑی فضیلتیں ہیں:

مسند احمد کی روایت میں ایک حدیث پاک ہے، حضرت زید بن ارقمؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ا کے صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ: یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ ا نے فرمایا: قربانی تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: ہمارے لئے اس میں کیا ثواب ہے؟ آپ ا نے فرمایا: اس کے ایک ایک بال کے عوض ایک نیکی ہے۔ اون کے متعلق فرمایا:اس کے ایک ایک بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: قربانی کے دن اس سے زیادہ کوئی عمل محبوب نہیں، قیامت کے دن قربانی کا جانور سینگوں، بالوںاور کھروں کے ساتھ لایا جائے گا اور خون کے زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے یہاں قبولیت کی سند لے لیتا ہے، اس لئے تم قربانی خوش دلی سے کرو۔ ابن عباسؓ فرماتے ہیں: قربانی سے زیادہ کوئی دوسرا عمل نہیں الا یہ کہ رشتہ داری کا پاس کیا جائے۔ (طبرانی)

رسول اللہ ا نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ ؓ سے ارشاد فرمایا کہ: تم اپنی قربانی ذبح ہوتے وقت موجود رہو، کیونکہ پہلا قطرۂ خون گرنے سے پہلے انسان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔

قربانی کی فضیلت کے بارے میں متعدد احادیث ہیں، اس لئے اہل اسلام سے درخواست ہے کہ اس عبادت کو ہرگز ترک نہ کریں جو اسلام کے شعائر میں سے ہے۔ اور اس سلسلہ میں جن شرائط وآداب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے،اُنہیں اپنے سامنے رکھیں اور قربانی کا جانور خوب دیکھ بھال کر خریدیں

Leave a Comment