https://mahmoodahmadofficial.com/کیا-اللہ-تعالیٰ-…پر-قادر-ہے-۔اللہ/عبادت کی تعریف ۔عبادت کسے کہتے ہیں عبادت تعریف
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۲۱)
ترجمۂ کنزالایمان:اے لوگو اپنے رب کو پوجو جس نے تمہیں اور تم سے اگلوں کو پیدا کیا یہ امید کرتے ہوئے کہ تمہیں پرہیزگاری ملے ۔
ترجمۂ کنزالعرفان:اے لوگو!اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا۔ یہ امید کرتے ہوئے(عبادت کرو) کہ تمہیں پرہیزگاری مل جائے۔
{یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ:اے لوگو! ۔} سورۂ بقرہ کے شروع میں بتایا گیا کہ یہ کتاب متقین کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی، پھر متقین کے اوصاف ذکر فرمائے ، اس کے بعد اس سے منحرف ہونے والے فرقوں کا اور ان کے احوال کا ذکر فرمایا تاکہ سعادت مند انسان ہدایت و تقویٰ کی طرف راغب ہواور نافرمانی و بغاوت سے بچے، اب تقویٰ حاصل کرنے کا طریقہ بتایا جارہا ہے اور وہ طریقہ عبادت اور اطاعتِ الہٰی ہے۔ ’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ‘‘ کے ذریعے تمام انسانوں سے خطاب ہے اور اس بات کااشارہ ہے کہ انسانی شرافت اسی میں ہے کہ آدمی تقویٰ حاصل کرے اور اللہ تعالٰی کا بندہ بنے ۔
عبادت کی تعریف:
عبادت اُس انتہائی تعظیم کا نام ہے جو بندہ اپنی عبدیت یعنی بندہ ہونے اور معبودکی اُلوہیت یعنی معبود ہونے کے اعتقاد اور اعتراف کے ساتھ بجالائے۔یہاں عبادت توحید اور اس کے علاوہ اپنی تمام قسموں کو شامل ہے۔کافروں کو عبادت کا حکم اس معنیٰ میں ہے کہ وہ سب سے بنیادی عبادت یعنی ایمان لائیں اور اس کے بعد دیگر اعمال بجالائیں۔
{لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ: تاکہ تمہیں پرہیزگاری ملے۔} اس سے معلوم ہوا کہ عبادت کا فائدہ عابد ہی کو ملتا ہے جبکہ اللہ تعالٰی اس سے پاک ہے کہ اس کو عبادت یا اور کسی چیز سے نفع حاصل ہو ۔
اَلَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً۪-وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَ جَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْۚ-فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۲)
ترجمۂ کنزالایمان:اور جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے پانی اتارا تو اس سے کچھ پھل نکالے تمہارے کھانے کو تو اللہ کے لئے جان بوجھ کر برابر والے نہ ٹھہراؤ ۔
ترجمۂ کنزالعرفان:جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور اس نے آسمان سے پانی اتاراپھر اس پانی کے ذریعے تمہارے کھانے کے لئے کئی پھل پیدا کئے تو تم جان بوجھ کر اللہ کے شریک نہ بناؤ۔
{اَلَّذِیْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً:جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا۔}اس آیت اور اس سے اوپر والی آیت میں اللہ تعالٰی نے اپنی ان نعمتوں کو بیان فرمایا ہے:
(1)…مخلوق کو عدم سے وجود میں لانا۔
(2)…آسمان و زمین کو پیدا کرنا۔
(3)…آسمان و زمین سے مخلوق کے رزق کا مہیا کرنا۔
(4)…آسمان سے بارش اتارنااور زمین سے نباتات اُگانا۔
جب آدمی کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک پل اللہ تعالٰی کی نعمتوں میں ڈوبا ہوا ہے تو اُس مالک ِ حقیقی کو چھوڑ کر کسی اورکا عبادت گزاربننا کس قدر ناشکری ہے؟ یونہی ایسے کریم خدا کی یاد سے غفلت بھی کتنی بڑی ناشکری ہے۔
وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ۪-وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۲۳)
ترجمۂ کنزالایمان:اور اگر تمہیں کچھ شک ہواس میں جو ہم نے اپنے ان خاص بندے پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے سب حمائتیوں کو بلالو اگر تم سچے ہو۔
ترجمۂ کنزالعرفان:اور اگر تمہیں اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہو جو ہم نے اپنے خاص بندے پرنازل کی ہے تو تم اس جیسی ایک سورت بنالاؤ اور اللہ کے علاوہ اپنے سب مددگاروں کو بلالو اگر تم سچے ہو۔
{ وَ اِنْ كُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ:اور اگر تمہیں کچھ شک ہو ۔} اس سے پہلی آیات میں اللہ تعالٰی کی قدرت و وحدانیت کا بیان ہوا اور یہاں سے حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت اور قرآن کریم کے اللہ تعالٰی کی بے مثل کتاب ہونے کی وہ قاہر دلیل بیان فرمائی جارہی ہے جو طالب ِصادق کو اطمینان بخشے اور منکروں کو عاجز کردے۔اللہ تعالٰی کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں اور محمد مصطفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عظمت کی سب سے بڑی دلیل قرآن ہے لہٰذا اس رکوع میں ترتیب سے ان سب کو بیان کیا گیا ہے۔
{عَلٰى عَبْدِنَا: اپنے خاص بندے پر ۔}اس آیت میں خاص بندے سے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ مراد ہیں۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۳، ص۳۵) یہاں اس اندازِ تعبیر میں نبی رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شانِ محبوبیت کی طرف بھی اشارہ ہے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کیا خوب فرماتے ہیں :
لیکن رضا نے ختمِ سخن اس پہ کر دیا خالق کا بندہ خَلق کا آقا کہوں تجھے
{فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ: تو تم اس جیسی ایک سورت بنالاؤ ۔}آیت کے اس حصے اور اس کے بعد والی آیت میں قرآن کے بے مثل ہونے پر دو ٹوک الفاظ میں ایک کھلی دلیل دی جارہی ہے کہ اپنی فصاحت و بلاغت پر ناز کرنے والوں کو چیلنج ہےکہ اگر تم قرآن کو اللہ تعالٰی کی کتاب نہیں بلکہ کسی انسان کی تصنیف سمجھتے ہو تو چونکہ تم بھی انسان ہو لہٰذا اس جیسی ایک سورت بنا کر لے آؤ جو فصاحتو بلاغت ،حسنِ ترتیب ، غیب کی خبریں دینے اور دیگر امور میں قرآن پاک کی مثل ہواور اگرایسی کوئی سورت بلکہ آیت تک نہ بناسکو تو سمجھ لو کہ قرآن اللہ تعالٰی کی کتاب ہے اور اللہ تعالٰی کی کتاب کا انکار کرنے والوں کا انجام دوزخ ہے جو بطورِ خاص کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے۔
نوٹ: یہ چیلنج قیامت تک تمام انسانوں کیلئے ہے، آج بھی قرآن کو محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی تصنیف کہنے والے کفار تو بہت ہیں مگر قرآن کی مثل ایک آیت بنانے والا آج تک کوئی سامنے نہیں آیا اور جس نے اس کا دعویٰ کیا ، اس کا پول خود ہی چند دنوں میں کھل گیا۔