اللہ کے عہد کو توڑنا کیساہے ۔اللہ کے عہد کو توڑنے سے کیا مراد ہے ۔اللہ عہد توڑنا
اَلَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِیْثَاقِهٖ۪-وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَاللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۲۷)
ترجمۂ کنزالایمان:وہ جو اللہ کے عہد کو توڑ دیتے ہیں پکا ہونے کے بعد اور کاٹتے ہیں اس چیز کو جس کے جوڑنے کا خدا نے حکم دیا اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں وہی نقصان میں ہیں۔ترجمۂ کنزالعرفان:وہ لوگ جو اللہ کے وعدے کو پختہ ہونے کے بعد توڑ ڈالتے ہیں اوراس چیز کو کاٹتے ہیں جس کے جوڑنے کااللہ نے حکم دیا ہے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں تو یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں۔
{اَلَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ :وہ جو اللہ کا عہد توڑتے ہیں۔} اس سے وہ عہد مراد ہے جو اللہ تعالٰی نے گزشتہ آسمانی کتابوں میں حضور سید عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کے متعلق فرمایا تھا۔ ایک قول یہ ہے کہ عہد تین ہیں :
پہلا عہد وہ جو اللہ تعالٰی نے تمام اولادِ آدم سے لیا کہ اس کی ربوبیت کا اقرار کریں ،اس کا بیان سورہ اعراف، آیت 172 میں ہے۔ دوسرا عہد انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ مخصوص ہے کہ رسالت کی تبلیغ فرمائیں اور دین قائم کریں ، اس کا بیان سورہ احزاب آیت 7 میں ہے۔ تیسرا عہد علماء کے ساتھ خاص ہے کہ حق کو نہ چھپائیں ، اس کا بیان سورہ آل عمران آیت 187 میں ہے۔
{مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖ:جس چیزکااللہ نے حکم دیا ۔} جن چیزوں کے ملانے کا حکم دیا گیا وہ یہ ہیں : (۱)رشتے داروں سے تعلقات جوڑنا،(۲)مسلمانوں کے ساتھ دوستی و محبت کرنا، (۳) تمام انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکو ماننا، (۴)تمام کتابوں کی تصدیق کرنا اورحق پر جمع ہونا۔ ان کو قطع کرنے کا معنیٰ ہے رشتے داروں سے تعلق توڑنا، انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو نہ ماننا اور اللہ تعالٰی کی کتابوں کی تصدیق نہ کرنا۔(تفسیر بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲۷، ۱ / ۲۶۶)
كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْۚ-ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(۲۸)
ترجمۂ کنزالایمان:بھلا تم کیونکر خدا کے منکر ہو گے حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں جِلایا پھر تمہیں مارے گا پھر تمہیں جِلائے گا پھر اسی کی طرف پلٹ کر جاؤ گے ۔
ترجمۂ کنزالعرفان:تم کیسے اللہ کے منکر ہوسکتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے تواس نے تمہیں پیدا کیا پھر وہ تمہیں موت دے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر اسی کی طرف تمہیں لوٹایا جائے گا۔
{ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ: تم کیسے اللہ کے منکر ہوسکتے ہو۔}توحید و نبوت کے دلائل اور کفر و ایمان کی جزا و سزا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالٰی نے اپنی خاص وعام نعمتوں کا اور قدرت کی عجیب نشانیوں کا ذکر فرمایا اورکفر کی خرابی اور برائی کو کافروں کے دلوں میں بٹھانے کیلئے انہیں خطاب کیا کہ تم کس طرح خدا کے منکر ہوتے ہو حالانکہ تمہارا اپنا حال اللہ تعالٰی پر ایمان لانے کاتقاضا کرتا ہے کیونکہ تم بدن میں روح ڈالے جانے سے پہلے تمام مراحل میں مردہ تھے یعنی کچھ نہ تھے یا بے جان جسم تھے پھر اس نے تم میں روح ڈال کر تمہیں زندگی دی پھر زندگی کی مدت پوری ہونے پر تمہیں موت دے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا ،اس سے یا توقبر کی زندگی مراد ہے جو سوال کے لیے ہوگی یا قیامت کی، پھر تم حساب کتاب اور جزا کے لیے اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو اپنے اس حال کو جان کر تمہارا کفر کرنا نہایت عجیب ہے ۔اس آیت میں غور کریں تو ہم مسلمانوں کیلئے بھی نصیحت ہے کہ ہم بھی کچھ نہ تھے لیکن اللہ تعالٰی نے ہمیں زندگی عطا کی اور زندگی گزارنے کے لوازمات اور نعمتوں سے نوازا تو اس کی عطاؤں سے فائدہ اٹھا کر اس کی یاد سے غافل ہونا اور ناشکری اور غفلت کی زندگی گزارنا کسی طرح ہمارے شایانِ شان نہیں
ہے۔
https://mahmoodahmadofficial.com/کیا-اللہ-تعالیٰ-…کہنے-سے-حیافرمات