-
حدیث پاک میں مذکور لفظ’’یَا مُحَمد‘‘ سے متعلق ضروری وضاحت:
پکارنا - آوازدینا
- یاکی شرعی حیثیت
- یاکی وجہ تسمیہ
https://mahmoodahmadofficial.com
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِفرماتے ہیں : ’’علماء تصریح فرماتے ہیں : حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہواٰلِہٖ وَسَلَّمَکو نام لے کر نداکرنی حرام ہے ۔ اور(یہ بات)واقعی محل انصاف ہے ،جسے اس کا مالک ومولی تبارک وتعالیٰ نام لے کر نہ پکارے(تو) غلام کی کیا مجال کہ(وہ) راہِ ادب سے تجاوز کرے، بلکہ امام زین الدین مراغی وغیرہ محققین نے فرمایا:اگریہ لفظ کسی دعا میں وارد ہوجو خود نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے تعلیم فرمائی(ہو) جیسے دعائے ’’ یَا مُحَمَّدُ اِنِّیْ تَوَجَّہْتُ بِکَ اِلٰی رَبِّیْ‘‘۔تاہم اس کی جگہ یَارَسُوْلَ اللہِ ، یَا نَبِیَّ اللہْ(کہنا) چاہیے، حالانکہ الفاظِ دعا میں حتَّی الوُسْعَ تغییر نہیں کی جاتی ۔یہ مسئلہ مہمہ(یعنی اہم ترین مسئلہ) جس سے اکثر اہل زمانہ غافل ہیں واجب الحفظ ہے۔(فتاوی رضویہ، ۳۰ / ۱۵۷-۱۵۸)
{وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ: اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔}اس آیت میں بیان کیاگیا کہ مدد طلب کرنا خواہ واسطے کے ساتھ ہو یا واسطے کے بغیر ہو ہر طرح سے اللہتعالیٰٰ کے ساتھ خاص ہے اور اللہ تعالٰی کی ذات ہی ایسی ہے جس سے حقیقی طور پر مدد طلب کی جائے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’حقیقی مدد طلب کرنے سے مراد یہ ہے کہ جس سے مدد طلب کی جائے اسے بالذات قادر،مستقل مالک اور غنی بے نیاز جانا جائے کہ وہ اللہ تعالٰی کی عطا کے بغیر خود اپنی ذات سے اس کام (یعنی مدد کرنے)کی قدرت رکھتا ہے۔ اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی اور کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا ہر مسلمان کے نزدیک’’شرک‘‘ ہے اور کوئی مسلمان اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی اور کے بارے میں ایسا ’’عقیدہ‘‘ نہیں رکھتا اور اللہ تعالٰی کے مقبول بندوں کے بارے میں مسلمان یہ عقیدہرکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ تک پہنچنے کے لئے واسطہ اور حاجات پوری ہونے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں تو جس طرح حقیقی وجود کہ کسی کے پیدا کئے بغیر خود اپنی ذات سے موجود ہونا اللہ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے،اس کے باوجود کسی کو موجود کہنا اس وقت تک شرک نہیں جب تک وہی حقیقی وجود مراد نہ لیا جائے، یونہی حقیقی علم کہ کسی کی عطا کے بغیر خود اپنی ذات سے ہواور حقیقی تعلیم کہ کسی چیزکی محتاجی کے بغیر از خود کسی کو سکھانا اللہ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے، اس کے باوجود دوسرے کو عالم کہنا یا اس سے علم طلب کرنا اس وقت تک شرک نہیں ہو سکتا جب تک وہی اصلی معنی مقصود نہ ہوں تو اسی طرح کسی سے مدد طلب کرنے کا معاملہ ہے کہ اس کا حقیقی معنی اللہ تعالٰی کے ساتھ خاص ہے اور وسیلہ و واسطہ کے معنی میں اللہ تعالٰی کے علاوہ کے لئے ثابت ہے اور حق ہے بلکہ یہ معنی تو غیرِخدا ہی کے لئے خاص ہیں کیونکہ اللہ تعالٰی وسیلہ اور واسطہ بننے سے پاک ہے ،اس سے اوپر کون ہے کہ یہ اس کی طرف وسیلہ ہو گا اور اس کے سوا حقیقی حاجت روا کون ہے کہ یہ بیچ میں واسطہ بنے گا۔ بدمذہبوں کی طرف سے ہونے والا ایک اعتراض ذکر کر کے اس کے جواب میں فرماتے ہیں : ’’یہ نہیں ہو سکتا کہ خداسے توسل کر کے اسے کسی کے یہاں وسیلہ و ذریعہ بنایا جائے ، اس وسیلہ بننے کو ہم اولیاء کرام سے مانگتے ہیں کہ وہ دربار الہٰی میں ہمارا وسیلہ،ذریعہ اور قضائے حاجات کاواسطہ ہو جائیں ، اُس بے وقوفی کے سوال کا جواب اللہ تعالٰی نے اس آیت کریمہ میں دیا ہے:
’’وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا‘‘(النساء: ۶۴)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور جب وہ اپنی جانوں پر ظلم یعنی گناہ کر کے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ سے معافی چاہیں اور معافی مانگے ان کے لئے رسول ،تو بے شک اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔
کیا اللہ تعالٰی اپنے آپ نہیں بخش سکتا تھا پھر کیوں یہ فرمایا کہ اے نبی! تیرے پاس حاضر ہوں اورتُو اللہ سے ان کی بخشش چاہے تویہ دولت و نعمت پائیں۔ یہی ہمارا مطلب ہے جو قرآن کی آیت صاف فرما رہی ہے۔(فتاوی رضویہ، ۲۱ / ۳۰۴-۳۰۵، ملخصاً)
زیر تفسیر آیت کریمہ کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاوی رضویہ کی 21ویں جلد میں موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رسالہ’’بَرَکَاتُ الْاِمْدَادْ لِاَہْلِ الْاِسْتِمْدَادْ(مدد طلب کرنے والوں کے لئے امداد کی برکتیں ) ‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔
https://mahmoodahmadofficial.com/عبادت۔تعظیم۔فرق۔عبادت-کا-معنی/