سورۂ فاتحہ سے متعلق شرعی مسائل:2024
1.ںمازمیں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا واجب
2. امام اعظم کا مناظرہ
https://mahmoodahmadofficial.com
(1)… نماز میں ’’سورۂ فاتحہ‘‘ پڑھنا واجب ہے،امام اور تنہا نماز پڑھنے والا اپنی زبان سے ’’سورۂ فاتحہ‘‘ پڑھے گا جبکہ مقتدی امام کے پیچھے خاموش رہے گا اور جہری نماز میں اس کی قراء ت بھی سنے گا اور اس کا یہی عمل پڑھنے کے حکم میں ہے۔ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں تلاوت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے اور قراء ت سننے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ‘‘(اعراف:۲۰۴)
ترجمۂ کنزالعرفان:اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
اورحضرت ابو موسی اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،حضور اقدسصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’جب امام قراء ت کرے تو تم خاموش رہو۔(ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب اذا قرء الامام فانصتوا، ۱ / ۴۶۲، الحدیث: ۸۴۷)
حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبیٔ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کا کوئی امام ہو تو امام کا پڑھنا ہی مقتدی کا پڑھنا ہے۔(ابن ماجہ،کتاب الصلاۃ،باب اذا قرء الامام فانصتوا، ۱ / ۴۶۴، الحدیث: ۸۵۰)ان کے علاوہ اور بہت سی احادیث میں امام کے پیچھے مقتدی کے خاموش رہنے کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔
امامِ اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا مناظرہ:
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’مدینہ منورہ کے چند علماء امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس اس غرض سے آئے کہ وہ امام کے پیچھے مقتدی کی قراء ت کرنے کے معاملے میں ان سے مناظرہ کریں۔امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے فرمایا:سب سے مناظرہ کرنا میرے لئے ممکن نہیں ،آپ ایسا کریں کہ مناظرے کا معاملہ اس کے سپرد کر دیں جو آپ سب سے زیادہ علم والا ہے تاکہ میں اس کے ساتھ مناظرہ کروں۔انہوں نے ایک عالم کی طرف اشارہ کیا تو امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:کیا یہ تم سب سے زیادہ علم والا ہے؟انہوں نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:کیا میرا اس کے ساتھ مناظرہ کرنا تم سب کے ساتھ مناظرہ کرنے کی طرح ہے؟انہوں نے کہا :’’ہاں۔‘‘امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:اس کے خلاف جو دلیل قائم ہو گی وہ گویا کہ تمہارے خلاف قائم ہو گی؟ انہوں نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘ امام ابو حنیفہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:اگر میں اس کے ساتھ مناظرہ کروں اور دلیل میں اس پرغالب آ جاؤں تو وہ دلیل تم پر بھی لازم ہو گی؟انہوں نے کہا: ’’ہاں۔‘‘ امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دریافت کیا:وہ دلیل تم پر کیسے لازم ہو گی؟انہوں نے جواب دیا:’’اس لئے کہ ہم اسے اپنا امام بنانے پر راضی ہیں تو اس کی بات ہماری بات ہو گی۔‘‘امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ جب ہم نے ایک شخص کو نماز میں اپنا امام مان لیا تو اس کا قراء ت کرنا ہمارا قراء ت کرناہے اور وہ ہماری طرف سے نائب ہے۔ امام ابو حنیفہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی یہ بات سن کر سب نے اقرار کر لیا(کہ امام کے پیچھے مقتدی قراء ت نہیں کرے گا)(تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ:۳۰، ۱ / ۴۱۲)
(2) …’’نماز جنازہ‘‘ میں خاص دعا یاد نہ ہو تو دعا کی نیت سے ’’سورۂ فاتحہ‘‘ پڑھنا جائز ہے جبکہ قراء ت کی نیت سے پڑھنا جائز نہیں۔(عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون، الفصل الخامس، ۱ / ۱۶۴)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمۂ کنزالایمان:اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا۔
ترجمۂ کنزالعرفان:اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔
{ بِسْمِ اللّٰهِ:اللہ کے نام سے شروع ۔} علامہ احمد صاوی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :قرآن مجید کی ابتداء’’ بِسْمِ اللّٰهِ‘‘سے اس لئے کی گئی تاکہ اللہ تعالٰی کے بندے اس کی پیروی کرتے ہوئے ہر اچھے کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کریں۔(صاوی،الفاتحۃ، ۱ / ۱۵) اور حدیث پاک میں بھی(اچھے اور)اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ‘‘ سے کرنے کی ترغیب دی گئی ہے،چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورپر نورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’جس اہم کام کی ابتداء ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ سے نہ کی گئی تو وہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ (کنز العمال، کتاب الاذ کار، الباب السابع فی تلاوۃ القراٰن وفضائلہ، الفصل الثانی۔۔۔الخ، ۱ / ۲۷۷، الجزءالاول،الحدیث:۲۴۸۸)
Visit website.https://mahmoodahmadofficial.com