حروفِ مُقَطَّعَات کا علم اللہ تعالٰی کے کسی اور کو حاصل ہے یانہیں۔حروف مقطعات

حروفِ مُقَطَّعَات کا علم اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی اور کو حاصل ہے یانہیں:حروف مقطعات
حروفِ مُقَطَّعَات کا علم اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی اور کو
حاصل ہے یانہیں:
حروف مقطعات

حروفِ مُقَطَّعَات کا علم اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی اور کو حاصل ہے یانہیں:

 

سورۂ فاتحہ کے ساتھ مناسبت:

 

’’سورۂ بقرہ‘‘ کی اپنے سے ماقبل سورت’’فاتحہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ میں مسلمانوں کو یہ دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی تھی’’اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ یعنی اے اللہ!ہم کو سیدھا راستہ چلا۔(فاتحہ: ۵) اور ’’سورۂ بقرہ‘‘ میں کامل ایمان والوں کے اوصاف ،مشرکین اور منافقین کی نشانیاں ،یہودیوں اور عیسائیوں کا طرز عمل ، نیز معاشرتی زندگی کے اصول اور احکام ذکر کر کے مسلمانوں کے لئے’’ صراطِ مستقیم ‘‘کو بیان کیا گیا ہے ۔

 

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

 

ترجمۂ کنزالایمان:اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا۔

 

ترجمۂ کنزالعرفان:اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔

 

الٓمّٓۚ(۱) ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ ﶈ فِیْهِ ۚۛ-هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَۙ(۲)

ترجمۂ کنزالایمان:وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن)کوئی شک کی جگہ نہیں اس میں ہدایت ہے ڈر والوں کو۔

ترجمۂ کنزالعرفان: الٓمّٓ۔ وہ بلند رتبہ کتاب جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔اس میں ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔

 

{الٓمّٓ:}قرآن پاک کی 29سورتوں کے شروع میں اس طرح کے حروف ہیں ،انہیں ’’حروفِ مُقَطَّعَات‘‘کہتے ہیں ، ان کے بارے میں سب سے قوی قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالٰی کے راز ہیں اور متشابہات میں سے ہیں ، ان کی مراد اللہ تعالٰی جانتاہے اور ہم ان کے حق ہونے پر ایمان لاتے ہیں۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۲۰، الاتقان فی علوم القرآن، النوع الثالث والاربعون، ۲ / ۳۰۸، ملتقطاً)

 

حروفِ مُقَطَّعَات کا علم اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی اور کو حاصل ہے یانہیں:

 

یہاں یہ بات یاد رہے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی حروف مقطعات کا علم عطا فرمایا ہے، جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:قاضی بیضاوی(رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) ’’اَنْوَارُالتَّنْزِیلْ‘‘ میں سورتوں کے ابتدائیہ یعنی حروف مقطعات کے بارے میں فرماتے ہیں : ایک قول یہ ہے کہ یہ ایک راز ہے جسے اللہ تعالٰی نے اپنے علم کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے۔تقریباً ًایسی ہی روایات خلفاء اربعہ اور دیگر صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ سے بھی(منقول) ہیں اور ممکن ہے کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے یہ مراد لیا ہو کہ یہحروف اللہتعالیٰٰ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے درمیان راز و نیاز ہیں اور یہ ایسے اسرار و رموز ہیں جنہیں دوسرے کو سمجھانامقصود نہیں۔اگر یہ راز حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو معلوم نہ ہو ں تو پھر غیر مفید کلام سے خطاب کرنا لازم آئے گا اور یہ بعید ہے۔(تفسیر بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۹۳)

 

امام خفاجی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’( اَنْوَارُالتَّنْزِیلْکے)بعض نسخوں میں ’’اِسْتَأْثَرَہُ اللہُ بِعِلْمِہٖ‘‘ ہے اور(اِسْتَأْثَرَہُ کی) ضمیر رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے لئے ہے اور ’’با‘‘ مقصور پر داخل ہے، یعنی اللہ تعالٰی نے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو اپنے علم سے (خاص کرکے)معزز و مکرم فرمایایعنی مقطعات کاعلم صرف اللہ تعالٰی اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو حاصل ہے۔اس معنی کو اکثر سلف اور محققین نے پسند فرمایا ہے۔(عنایۃ القاضی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۱۷۸، مختصراً، انباء الحی، مطلب المتشابہات معلومۃ النبیصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، ص۵۲-۵۳)

 

علامہ محمود آلوسی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِِ فرماتے ہیں ’’ غالب گمان یہ ہے کہ حروف مقطعات مخفی علم اور سربستہ راز ہیں جن کے ادراک سے علماء عاجز ہیں جیسا کہ حضرت عبد اللہبن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے فرمایا، اور خیالات اس تک پہنچنے سے قاصر ہیں اور اسی وجہ سے حضرت ابو بکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:ہر کتاب کے راز ہوتے ہیں اور قرآن مجید کے راز سورتوں کی ابتداء میں آنے والے حروف ہیں۔اورامام شعبی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : یہ حروف اللہ تعالٰی کے اسرار ہیں تو ان کاکھوج نہ لگاؤ کیونکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے بعد ان کی معرفت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے علوم کے وارث اولیاء کرام کو ہے،انہیں اسی بارگاہ سے (ان اسرار کی) معرفت حاصل ہوتی ہے اور کبھی یہ حروف خود انہیں اپنا معنی بتا دیتے ہیں جیسے نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ہاتھوں میں کنکریوں نے تسبیح کے ذریعے کلام کیا اور گوہ اور ہرن حضور اقدسصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے ہم کلام ہوئے جیسا کہ ہمارے آباؤ اجداد یعنی اہلِ بیت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْسے یہ بات (حروف ِ مقطعات کا علم ہونا) صحت سے ثابت ہے بلکہ جب کوئی بندہ قرب ِ نوافل کے درخت کا پھل چنتا ہے تو وہ ان حروف کو اور اس کے علاوہ کے علم کو اللہتعالیٰٰ کے علم کے ذریعے جان لیتا ہے۔اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر ان کاکوئی مفہوم نہ ہو تو ان کے ساتھ خطاب مہمل خطاب کی طرح ہو گا۔‘‘یہ بات ہی مہمل ہے اگرچہ اسے کہنے والاکوئی بھی ہو کیونکہ اگر تمام لوگوں کو سمجھانا مقصود ہو تو یہ ہم تسلیم نہیں کرتے اور اگر صرف ان حروف کے مخاطب کو سمجھانا مقصود ہواور وہ یہاں رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ہیں تو اس میں کوئی مومن شک نہیں کر سکتا (کہ سرکار دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَان کا معنیٰ جانتے ہیں) اور اگر اس سے بعض لوگوں کو سمجھانا مقصود ہے تو اربابِ ذوق کو ان کی معرفت حاصل ہے اور وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہامت ِمحمدیہ میں کثیر ہیں اور ہم جیسوں کا ان کی مراد نہ جاننا نقصان دہ نہیں کیونکہ ہم تو ان بہت سے افعال کی حکمت بھی نہیں جانتے جن کے ہم مکلف ہیں جیسے جمرات کی رمی کرنا صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا،رمل اور اضطباع وغیرہ اور ان جیسے احکام میں اطاعت کرناسرِ تسلیم خم کرنے کی انتہا پر دلالت کرتا ہے۔(روح المعانی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱، ۱ / ۱۳۶-۱۳۷)

 

{لَا رَیْبَ: کوئی شک نہیں۔}آیت کے اس حصے میں قرآن مجید کا ایک وصف بیان کیاگیا کہ یہ ایسی بلند شان اور عظمت و شرف والی کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ شک اس چیز میں ہوتا ہے جس کی حقانیت پر کوئی دلیل نہ ہو جبکہ قرآن پاک اپنی حقانیت کی ایسی واضح اور مضبوط دلیلیں رکھتا ہے جو ہر صاحب ِ انصاف اورعقلمند انسان کو اس بات کا یقین کرنے پر مجبور کردیتی ہیں کہ یہ کتاب حق ہے اور اللہ تعالٰی کی طرف سے نازل ہوئی ہے ،تو جیسے کسی اندھے کے انکار سے سورج کا وجود مشکوک نہیں ہوتا ایسے ہی کسی بے عقل مخالف کے شک اور انکار کرنے سے یہ کتاب مشکوک نہیں ہوسکتی۔

 

{هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ :ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔} آیت کے اس حصے میں قرآن مجید کا ایک اور وصف بیان کیا گیا کہ یہ کتاب ان تمام لوگوں کو حق کی طرف ہدایت دیتی ہے جو اللہ تعالٰی سے ڈرتے ہیں اور جو لوگ نہیں ڈرتے ، انہیں قرآن پاک سے ہدایت حاصل نہیں ہوتی۔یاد رہے کہ قرآن پاک کی ہدایت و رہنمائی اگرچہ مومن اور کافر ہر شخص کے لیے عام ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 185 میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا ’’هُدًى لِّلنَّاسِ‘‘ یعنی قرآن مجید تمام لوگوں کیلئے ہدایت ہے۔لیکن چونکہ قرآن مجید سے حقیقی نفع صرف متقی لوگ حاصل کرتے ہیں اس لیے یہاں ’’هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ‘‘ یعنی ’’ متقین کیلئے ہدایت‘‘ فرمایا گیا۔( ابو سعود، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱ / ۳۲)

https://mahmoodahmadofficial.com/سورۃ۔البقرہ۔مضامی

 

Leave a Comment