تقویٰ کا معنی تقویٰ کے مراتب تقویٰ کے فضائل۔تقوی معنی مراتب فضائل

.تقویٰ کا معنی تقویٰ کے مراتب تقویٰ کے فضائل

تقویٰ کا معنی:

 

تقویٰ کا معنی ہے:’’ نفس کو خوف کی چیز سے بچانا۔‘‘ اور شریعت کی اصطلاح میں تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ نفس کو ہر اس کام سے بچانا جسے کرنے یا نہ کرنے سے کوئی شخص عذاب کا مستحق ہو جیسے کفر وشرک،کبیرہ گناہوں ، بے حیائی کے کاموں سے اپنے آپ کو بچانا،حرام چیزوں کو چھوڑ دینا اورفرائض کو ادا کرنا وغیرہ اوربزرگانِ دین نے یوں بھی فرمایا ہے کہ تقویٰ یہ ہے کہ تیراخدا تجھے وہاں نہ پائے جہاں اس نے منع فرمایا ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۹، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱ / ۲۲، ملتقطاً)

 

تقویٰ کے فضائل:

 

صراط الجنان فی تفسیر القران جلد-اول-پارہ ایک تا تین

کتاب میں سرچ کریں

 

 

قرآن مجید اور احادیث میں تقویٰ حاصل کرنے اور متقی بننے کی ترغیب اور فضائل بکثرت بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:

 

’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ‘‘(اٰل عمران: ۱۰۲)

 

ترجمۂ کنزالعرفان:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔

 

اور ارشاد فرمایا: ’’یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًاسدِیْدًاۙ(۷۰) یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا‘‘(احزاب: ۷۰-۷۱)

 

ترجمۂ کنزالعرفان:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہاکرو۔اللہ تمہارے اعمال تمہارے لیے سنواردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔

 

حضرت عطیہ سعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ کوئی بندہ اُس وقت تک متقین میں شمار نہیں ہو گا جب تک کہ وہ نقصان نہ دینے والی چیز کو کسی دوسری نقصان والی چیز کے ڈر سے نہ چھوڑ دے۔(یعنی کسی جائز چیز کے ارتکاب سے ممنوع چیز تک نہ پہنچ جائے۔ )(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ۱۹-باب ، ۴ / ۲۰۴-۲۰۵، الحدیث: ۲۴۵۹)

 

حضرت ابو سعید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’تمہارا ربعَزَّوَجَلَّایک ہے ، تمہارا باپ ایک ہے اور کسی عربی کوعجمی پر فضیلت نہیں ہے نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے ، نہ گورے کو کالے پر فضیلت ہے ، نہ کالے کو گورے پر فضیلت ہے مگر صرف تقویٰ سے۔(معجم الاوسط، ۳ / ۳۲۹، الحدیث: ۴۷۴۹)

 

حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے،حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’تمہارا رَب عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے:اس بات کا مستحق میں ہی ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے اور جو مجھ سے ڈرے گا تو میری شان یہ ہے کہ میں اسے بخش دوں۔ (دارمی، کتاب الرقاق، باب فی تقوی اللہ، ۲ / ۳۹۲، الحدیث: ۲۷۲۴)

 

تقویٰ کے مراتب:

 

علماء نے ’’تقویٰ ‘‘کے مختلف مراتب بیان فرمائے ہیں جیسے عام لوگوں کا تقویٰ ’’ایمان لا کر کفر سے بچنا‘‘ہے، متوسط لوگوں کا تقویٰ ’’احکامات کی پیروی کرنا‘‘ اور’’ ممنوعات سے رکنا ‘‘ہے اور خاص لوگوں کا تقویٰ ’’ہر ایسی چیز کو چھوڑ دینا ہے جو اللہ تعالٰی سے غافل کرے۔‘‘( جمل ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱ / ۱۷)

 

اوراعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ کے فرمان کے مطابق تقویٰ کی سات قسمیں ہیں : (۱) کفر سے بچنا۔ (۲) بدمذہبی سے بچنا۔ (۳) کبیرہ گناہ سے بچنا۔ (۴) صغیرہ گناہ سے بچنا۔(۵) شبہات سے پرہیز کرنا۔ (۶) نفسانی خواہشات سے بچنا۔ (۷) اللہ تعالٰی سے دورلے جانے والی ہر چیز کی طرف توجہ کرنے سے بچنا، اور قرآن عظیم ان ساتوں مرتبوں کی طرف ہدایت دینے والا ہے ۔(خزائن العرفان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۴، ملخصاً) اللہ تعالٰی ہمیں متقی اور پرہیز گار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

 

اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳)

 

ترجمۂ کنزالایمان:وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں۔

 

ترجمۂ کنزالعرفان:وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں۔

 

{اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ:وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔}یہاں سے لے کر ’’اَلْمُفْلِحُوْنَ‘‘تک کی 3 آیات مخلص مومنین کے بارے میں ہیں جو ظاہری او رباطنی دونوں طرح سے ایمان والے ہیں ، اس کے بعد دو آیتیں ان لوگوں کے بارے میں ہیں جو ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے کافر ہیں اور اس کے بعد 13 آیتیں منافقین کے بارے میں ہیں جو کہ باطن میں کافر ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔ آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا ایک وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔یعنی وہ ان تمام چیزوں پر ایمان لاتے ہیں جو ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان کے بارے میں خبر دی ہے جیسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا،قیامت کا قائم ہونا،اعمال کا حساب ہونا اور جنت و جہنم وغیرہ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں غیب سے قلب یعنی دل مراد ہے، اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ دل سے ایمان لاتے ہیں۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ص۲۰، تفسیر بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳، ۱

/ ۱۱۴، ملتقطاً)

تقویٰ کا معنی تقویٰ کے مراتب تقویٰ کے فضائل۔معنی مراتب فضائل
تقویٰ کا معنی تقویٰ کے مراتب تقویٰ کے فضائل۔معنی مراتب فضائل

https://mahmoodahmadofficial.com/حروف-۔مقطعات۔علم

Leave a Comment